پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے نو مئی کے حوالے سے مشروط معافی مانگنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ اُن کی پارٹی کا ایک بھی بندہ جلاؤ گھیراؤ میں ملوث ہے تو اُسے پارٹی سے نکال دیں گے اور معافی مانگ لیں گے۔اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ نو مئی کی کال اُنہوں نے نہیں دی تھی،اِن واقعات کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے لائی جائیں،جب ثبوت موجود ہیں تو اُنہیں چھپایا کیوں جا رہا ہے،ثبوت چھپانا جرم ہے۔ عمران خان نے یہ تسلیم کیا کہ زمان پارک میں پٹرول بم استعمال کئے گئے تھے لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ اِس کے علاوہ کہیں اور ایسا نہیں کیا گیا،اگر مقامی تنظیمی عہدیداران نے حساس عمارتوں پر پٹرول بم پھینکے ہیں اُنہیں بھی کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ایک طرف تو انہوں نے مشروط معافی کی بات کی اور دوسری طرف انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ معافی تو وہ مانگتا ہے جس نے کوئی غلطی کی ہو، ان کے پُرامن احتجاج کو دہشت گردی بنا دیا گیا، ظلم تو اُن کے ساتھ ہوا، دراصل معافی اُن سے مانگی جائے، پُر اَمن احتجاج اُن کا حق ہے،وہ بھی نو مئی کو معاف نہیں کریں گے، اُن کے لوگوں پر تشدد کیا گیا، اُن کے 16 لوگ مارے گئے، تین لوگوں کی ٹانگیں کٹ گئیں، ایک بندہ مفلوج ہوا،وہ ڈرتے تو جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ نہ کرتے۔ بنگلہ دیش کے واقعات پر بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اِس سے برے حالات ہیں، اُن کا کہنا تھا کہ حسینہ واجد کے واقعے کے بعد انہیں لگ رہا ہے ملک میں کچھ بڑا ہونے والا ہے، وہ ملک کی خاطر بات کرنے کو تیار ہیں، کوئی اگر بات نہیں کرنا چاہتا تو نہ کرے، وہ بھی نہیں کریں گے۔ بانی پی ٹی آئی کی اِس گفتگو پر رد عمل دیتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا کہ معافی غلطی کی ہوتی ہے، جرم کی سزا ہوتی ہے اور ملک پر حملہ کرنے کو دہشت گردی کہتے ہیں۔وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے اسے بھی بانی پی ٹی آئی کا یو ٹرن قرار دیا اور کہا کہ یہ اُن کا وتیرہ ہے۔خیال رہے کہ ابھی دو روز قبل پانچ اگست کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل نے اپنی پریس کانفرنس میں واضح کیا تھا کہ نومئی سے متعلق فوج کے مؤقف میں کوئی تبدیلی آئی ہے، نہ آئے گی اور وہ پہلے بھی کئی بار یہ بات کر چکے ہیں۔
نو مئی 2023ء کو جو کچھ ہوا،اُس کی تائید و حمایت تو کسی صورت نہیں کی جا سکتی۔ گزشتہ برس جب بانی پی ٹی آئی عمران خان کو اسلام آباد میں گرفتار کیا گیا تو اُن کے کارکن سڑکوں پر نکل آئے۔ پُرتشدد احتجاج کیا، کور کمانڈر ہاؤس لاہور (جناح ہاؤس)، پاکستان ایئر فورس بیس میانوانی، آرمڈ سروسز بورڈ، بریگیڈ ہیڈ کواٹرز، گیریژن آفیسر میس، عسکری ٹاور اور پاک فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹر(جی ایچ کیو) راولپنڈی پر شرپسندوں نے حملے کیے، توڑ پھوڑ کی اور شہداء کی یادگاروں کو توڑاگیا۔ اگلے روز ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت کو آگ لگا دی جس سے وہاں موجود تاریخی ریکارڈ جل گیا۔ملکی تاریخ میں اِس طرح کے احتجاج کی مثال نہیں ملتی۔ اُس وقت کی حکومت اور انتظامیہ کے مطابق پی ٹی آئی کے ضلعی، صوبائی اور مرکزی عہدیداران نے ہجوم کو اُکسایا، اُن کو اشتعال دِلایا جس کے نتیجے میں تباہی و بربادی ہوئی۔کارکنان اپنی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کرتے رہے اور کئی ویڈیو پیغامات بھی چلائے گئے۔سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری اور اُن پر مقدمے بننا کوئی انہونی نہیں ہے، ماضی میں ایسا ہوتا آیا ہے، بڑے بڑے سیاسی برج اُلٹائے گئے،سیاستدانوں نے جیلیں کاٹیں،سابق وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو کو تو پھانسی پر چڑھا دیا گیا، سابق وزیراعظم نواز شریف کو اقتدار چھوڑنا پڑا جس پر احتجاج بھی ہوئے لیکن ایسے ہنگاموں کی مثال نہیں ملتی۔
عمران خان کو جیل میں ایک سال گزر گیا ہے، ایک مقدمے سے نکلتے ہیں تو دوسرے میں دھر لئے جاتے ہیں،پہلے تو وہ مذاکرات کے لئے کسی صورت رضامند نہیں تھے، پھر انہوں نے ذرا لچک دکھائی، مذاکرات شروع ہوئے لیکن آگے نہ بڑھ سکے، پھر وقتاً فوقتاً کہتے رہے کہ موجودہ حکومت اور اُس کے اتحادیوں سے وہ کوئی بات چیت نہیں کریں گے،ہاں البتہ جہاں مذاکرات ہونا چاہئیں وہاں کرنے کا عندیہ دیتے رہے۔اب بھی وہ فوج کے ساتھ گفتگو کرنے پر تو تیار ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنا نہیں چاہتے۔ چند روز قبل ہی انہوں نے کہا پاک فوج اپنا نمائندہ مقرر کرے، وہ مذاکرات کرنے کے لیے تیار یں۔ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ انہوں نے فوج پر کبھی الزامات نہیں لگائے بلکہ تنقید کی ہے جو جمہوریت کا حُسن ہے۔ رواں برس انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نے حکومت بنانے کے لئے اُن سے رابطہ کیا تھا لیکن عمران خان نہ مانے۔پی ٹی آئی نے ہر طریقہ آزمایا، انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا،آئی ایم ایف کو حکومت کو پروگرام نہ دینے کے لئے خط لکھا، پی ٹی آئی کی لابنگ کی بدولت امریکی ایوانِ نمائندگان نے گزشتہ ماہ قرارداد منظور کی جس میں پاکستان میں ہونے والے حالیہ عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی ”مکمل اور آزادانہ“ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اب بالٓاخربانی پی ٹی آئی معافی کی بات کر رہے ہیں چاہے مشروط ہی سہی اور اگر دیکھا جائے تو ایک طرح سے انہوں نے تو کام آسان کر دیا ہے، وہ ثبوت مانگ رہے ہیں تو ثبوت اُنہیں فراہم کر دیئے جائیں،نو مئی کو ملک میں جو کچھ ہوا وہ کیمروں کے ذریعے ریکارڈ ہو گیا تھا، سی سی ٹی وی فوٹیجز موجود ہیں،وہ عمران خان کو دکھا دی جائیں،اِس میں تو کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے، اگر مگر کا سلسلہ اپنے آپ ہی ختم ہو جائے گا۔اہل ِ سیاست کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ غلطی پر اصرار کرنا اُس سے بڑی غلطی ہوتی ہے، جو ہو گیا ہے اُسے بدلا نہیں جا سکتا لیکن اُسے مان کر اور اپنے رویے میں لچک پیدا کر کے آگے ضرور بڑھا جا سکتا ہے۔ بڑے لیڈر کا حوصلہ بھی بڑا ہوتا ہے، اللہ جن کو نوازتا، جن پر انعامات زیادہ ہوتے ہیں، جنہیں اقتدار دیتا ہے،اُن کی آزمائشیں بھی بڑی ہوتی ہیں بس اس ”پُل ِ صراط“ سے گزر جانے کی ہمت ہونی چاہئے۔ اِس وقت سارے ہی سیاستدان بنگلہ دیش کی مثالیں دے رہے ہیں، خود کو خالدہ ضیا ء اور مخالف کو حسینہ واجد قرار دے رہے ہیں، دِل کی تسلی کو غالب یہ خیال تو اچھا ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ ایک ہی لکیر پیٹنے سے گریز کریں،اقتدار آتا ہے اور چلا جاتا ہے، ادارے اپنا کام کریں،حکومت اپنا فرض نبھائے اور صرف اور صرف ملک کو مقدم رکھیں۔