عام انتخابات اور بے یقینی کی صورت حال

تحریر ٜ نسیم شاہد

یورپی یونین پارلیمنٹ کے الیکشن آبزرویشن مشن کے سربراہ مائیکل گمبلر نے اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستان میں اس سال انتخابات کے حوالے سے جس بے یقینی کا اظہار کیا ہے، اس حوالے سے لمحہئ فکریہ ہے کہ اس سے عالمی سطح پر ایک غلط پیغام جائے گا اور جو بے یقینی پہلے سے موجود ہے اور جس کی وجہ سے عالمی سطح پر ہمارا سیاسی امیج متاثر ہو رہا ہے، اس میں مزید شدت آ جائے گی۔ چاہیے تو یہ کہ اس کے جواب میں حکومتی یا الیکشن کمیشن کی طرف سے ایک واضح جواب آئے، جس میں انتخابات آئینی مدت کے اندر کرانے کی یقین دہانی کرائی جائے، تاکہ اس حوالے سے اگر کوئی ابہام موجود ہے تو اس کا خاتمہ ہو سکے۔ اس سے پہلے یہ خبر بھی آئی تھی کہ الیکشن کمیشن نے آئندہ انتخابات کے موقع پر عالمی مبصرین کو پاکستان کے لئے ویزے جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس خبر کی الیکشن کمیشن نے تردید کر دی ہے اور کہا ہے کہ اگست میں عالمی مبصرین کو پاکستان آنے کی اجازت دی جائے گی۔ اس بار انتخابات پر عالمی مبصرین اور میڈیا کی اس لئے بھی نظریں ہوں گی کہ عمران خان کی طرف سے مسلسل کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عالمی میڈیا نے متعدد ایسے انٹرویوز بھی نشر کئے ہیں جن میں عمران خان نے شفاف انتخابات کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ یورپی یونین پارلیمنٹ کے الیکشن آبزرویشن سربراہ کو آخر اس خدشے کا اظہار کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ 2023ئ میں انتخابات کا انعقاد یقینی نہیں؟کیا وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں چونکہ من پسند نتائج کا حصول ممکن نہیں اس لئے انتخابات سے گریز کیا جائے گایا وہ انتخابات کے ممکنہ التوائ کی وجہ دوسرے معاملات کو قرار دیتے ہیں جن میں معیشت اور امن و امان کی خرابی وغیرہ شامل ہیں۔ عام انتخابات کے بارے میں یہ بے یقینی اس لحاظ سے ملکی مفاد میں نہیں کہ اس سے ملک کے اندر اور بیرون ملک سے آنے والی سرمایہ کاری پر منفی اثرات پڑتے ہیں جن کے نتائج ہم پہلے ہی بھگت رہے ہیں۔
وزیراعظم شہبازشریف نے چند روز پہلے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ مدت پوری ہوتے ہی حکومت چھوڑ دیں گے۔ حکومت چھوڑنا بڑا مسئلہ نہیں جتنا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے بعد وقتِ مقررہ پر انتخابات ہوں۔ اس کے لئے اس وقت اقتدار میں موجود جماعتوں کو اپناکردار ادا کرنا چاہیے۔ جب یہ بات معلوم ہے کہ اگست کے دوسرے ہفتے میں اسمبلی کی مدت پوری ہو جائے گی تو الیکشن کا متوقع شیڈول دینے میں کیا حرج ہے۔ ویسے تو نئی ترمیم کے بعد یہ اختیار الیکشن کمیشن کے پاس آ گیا ہے لیکن ماضی قریب میں دیکھا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے حکومت وقت کا تعاون نہ ملنے پر پنجاب اسمبلی کے انتخابات کرانے سے معذوری ظاہر کی۔ سب سے پہلے سیاسی قوتوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ انتخابات ہر صورت میں مقررہ وقت پر ہوں۔ابھی تک پی ڈی ایم کی طرف سے ایسا کوئی دوٹوک موقف سامنے نہیں آیاکہ انتخابات آئینی مدت کے درمیان ہی ہوں گے۔ صرف پیپلزپارٹی نے اس حوالے سے ایک واضح موقف اپنایا ہے جبکہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن تو باقاعدہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ حالات انتخابات کے لئے سازگار ہوئے تو انتخابات کی تاریخ بڑھانے میں کوئی حرج نہیں۔ سازگار حالات سے ان کی کیا مراد ہے اس بارے میں انہوں نے کبھی وضاحت نہیں کی جبکہ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب تک تحریک انصاف کا میدان سے صفایا نہیں کر دیا جاتا اس وقت تک انتخابات نہیں ہونے چاہئیں۔ جہاں تک مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے تو وہ دوباتیں چاہتی ہے۔ پہلی یہ کہ نوازشریف واپس آئیں اور ان کی نااہلی کا خاتمہ ہو، انہیں انتخابات میں حصہ لینے کا موقع ملے جس کے بعد وہ چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کے اہل بن جائیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ یہ بھی چاہتی ہے کہ عمران خان کو نااہل قرار دے کر انتخابات سے باہر کیا جائے۔ 9مئی کے بعد تو تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے مطالبے بھی مسلم لیگی رہنما¶ں کی طرف سے کئے جاتے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے ساتھ جو کچھ اب تک ہوا ہے، وہ غالباً موجودہ حکومتی سیٹ اپ کے لئے کافی نہیں۔ حالانکہ پارٹی کی تمام قابلِ ذکر قیادت جماعت چھوڑ گئی ہے۔ عمران خان پر پابندیاں ہیں، تحریک انصاف کسی قسم کا جلسہ یا جلوس منعقد نہیں کر سکتی۔امیدوار بننے کے خواہشمندوں کو اُٹھا لیا جاتا ہے۔ بظاہر تحریک انصاف مروجہ سیاسی منظر نامے سے غائب ہو چکی ہے مگر اس کے باوجود ایک انجانا سا خوف موجود ہے کہ الیکشن کا اعلان ہوا تو تحریک انصاف پھر باہر نکل آئے گی اور اس وقت اسے روکنا مشکل ہو جائے گا۔ اس خوف کی وجہ سے انتخابات کا دوٹوک اعلان نہیں کیا جا رہا اور بے یقینی و ابہام بڑھتا جا رہا ہے۔
وقت گزرتا جا رہا ہے اور صرف ایک ماہ کے لگ بھگ اس حکومتی سیٹ اپ کی مدت رہ گئی ہے۔ اس کے بعد کیا نقشہ سامنے آتا ہے اس بارے میں کسی کے پاس کوئی جواب نہیں، شاید اس کو بنیاد بنا کر یورپی پارلیمنٹ آبزرویشن کے سربراہ نے انتخابات کے حوالے سے بے یقینی کا اظہار کیا ہے۔ ایک خدشہ یہ موجود ہے کہ ایک دو سالوں کے لئے قومی حکومت بنائی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے حکومت پارلیمنٹ میں کوئی قرارداد لا سکتی ہے یاسپریم کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے۔ ایسا ہوا تو یہ کوئی نیک شگون نہیں ہوگا۔ ہم پچھلے تین عام انتخابات وقتِ مقررہ پر کراچکے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ اب اس بارے میں کوئی رخنہ نہ آئے اور اس بار بھی انتخابات مقررہ آئینی مدت کے درمیان ہوں۔ بڑی مشکل سے ہم نے عام انتخابات کا مرحلہ طے کیا ہے، وگرنہ یہاں آٹھ آٹھ دس دس سال تک انتخابات نہیں ہوتے تھے۔ اب اگر 2008ئ سے ہم تسلسل کے ساتھ انتخابی عمل سے گزر رہے ہیں تو ہمیں سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بار بھی انتخابات وقتِ مقررہ پر کرانے کے لئے پورا زور لگا دینا جاہیے۔ صرف اس خوف سے کہ کوئی خاص جماعت نہ جیت جائے الیکشن کا التوائ عوام کی توہین ہوگی۔یہ عوام کا حق ہے کہ وہ فیصلہ دیں کسے اپنی نمائندگی کے لئے منتخب کرنا ہے۔ انتخابات کا دوسرا پہلو ان کی شفافیت ہے،اگر انتخابات میں غیر جانبداری اور شفافیت برقرار نہیں رہتی اور صاف لگتا ہے کہ انہیں سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے من پسند نتائج کی طرف موڑا گیا ہے تو یہ بات ملک میں جاری سیاسی بے یقینی اور انتشار کو کم نہیں کرے گی بلکہ مزید بڑھا دے گی جس کے ہم موجودہ حالات میں متحمل نہیں ہو سکتے۔ پاکستان میں فیصلے عوام کی رائے سے ہونے چاہئیں بالکل اُسی طرح جیسے باقی جمہوری ملکوں میں ہوتے ہیں۔ نااہلی کے واقعات اس ملک میں بہت ہو چکے، ان سے سوائے انتشار اور معاشی عدم استحکام کے ہمیں کچھ نہیں ملا۔ اب اس روش کو بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان بھی ایک مستحکم جمہوریت سے سرفراز ہو کر آگے بڑھ سکے۔

ماہنامہ سلوک کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں

Leave a Reply